MotasimMalik

Add To collaction

دور کے ڈھول

دور کے ڈھول۔ سیکنڈ قسط گھر میں ساریہ بور ھونا شروع ھوگی صفوان کی چھٹی بھی ختم ھورھی تھی۔ بھابھی صفوان کی پسند کے خشک حلوے بنا رھی تھیں ساریہ کچن میں آگئ بھابھی جی وہ بولی بولو ساری بھابھی یہ کیا آپ بھی ساری کہیں گی ساریہ نے کہا اچھا بتاؤ کیسے آنا ھوا کچن میں بھابھی بور ھورھی ھوں۔ پھر کیسے تمہاری بوریت ختم ھو کچھ بتاؤ بھی بھابھی نے پوچھا یہی سمجھ نہیں آرھی میں چچی سے بات کرتی ھوں تمھیں کہیں بھیج دیتے ھیں اجھا یہ دال کا حلوہ کھاؤ بھابھی نے کہا وہ تھوڑا سا حلوہ لے کر کمرے میں آگئ بھابھی حلوہ بہت اچھا بناتی ھیں وہ دل میں مانتی تھی۔ دو چار دن گزرے تو خالہ شریفین گھر آگئ یہ رشتے کرانے والی بیبی تھیں اگرچہ جانتی تھیں کہ اس خاندان کے رشتے باھر نہیں ھوتے مگر وہ تائ کو ملنے ضرور آتی تھی اب کافی دنوں کے بعد خالہ آئ تھی ساریہ کو دیکھتے بولی اے بیٹا کب آئ جونسبرشٹی سے ساریہ نے جواب دیا خالہ تین چار دن ھوئے ھیں پھر خالہ نے اماں اور تائ سے کھسر پھسر شروع کردی۔ اگلے دن شام کو شریفین بی آئیں ساتھ دو خواتین تھیں۔ انھیں ڈرائنگ روم میں بٹھایا۔۔ یہ دونوں ماں بیٹی رشتے کے لئے آئیں تھیں انکا بیٹا ایک فرم میں اکاوئنٹینٹ تھا اماں اور تائ شگفتہ نے شریفین کو باھر بلا کر کہا تم کیوں لے آئیں ھم نے بتایا بھی تھا کہ باھر ھم نہیں کرتے مگر اب گھر آئے مہمان کی خاطر مدارت کی گئ ساریہ بھی ادھر ابیٹھی تھی شریفین نے اشارے سے ان ماں بیٹی کو بتایا کہ یہ لڑکی ھے جاتے ھوئے کہ گئیں ھمیں بچی پسند ھے۔ اب گھر میں عجیب باتیں چل رھیں ساریہ نے سماں کو کہا کہ دیکھ لینے میں کوئ حرج تو نہیں اماں ابا نے اسکی ضد کی وجہ سے تایا کے ساتھ بات کی انھوں نے کہا کہ آپکی مرضی ھے تو دیکھ لیں ویسے نجیب کہ رھا تھا کہ صداقت کے لئے میرا دل ھے۔ چلو اب کسی دن انکے گھر ھو آتے ھیں پھر کچھ دن میں تائ تایا اماں بھابھی ابا ان کے گھر ھو آئے کبھی باھر رشتہ نہیں ھوا تھا لوگوں کی اتنی پہچان نہ تھی بس سب کو سیدھے سے لوگ لگے سادہ طبیعت سے لڑکا بھی سنجیدہ سا لگا آنا جانا شروع ھوگیا تھا تایا نے انھیں کہا ھم سوچ کر بتاتے ھیں بھابھی نے لڑکے کی تصویر ساریہ کو دے دی ساریہ نے دیکھا مغیث اسے اچھا لگا داڑھی ھلکی سی تھی چہرے پر سنہرا فریم والا چشمہ اس سے ساریہ کو بہت زھین لگا اس نے بھابھی کو کہا کہ ٹھیک ھے اگلے دن ساریہ کی دونوں بہنیں آگئ جب انھیں پتہ چلا تو بولیں اماں یہ کیا کرنے لگی ھی۔ باھر کے لوگ جیسے ھوں تب اماں نے کہا کہ میں کیا کروں اس لڑکی کا کب سے اڑی بیٹھی ھے کہ زندگی میں کوئ چینج ھونا چاہئیے۔ شام میں دونوں بہنیں بھی لڑکے کی طرف ھو آئیں مگر مطمئن نہ تھیں گھر کے بڑوں نے کچھ لوگوں سے پتا کرایا تھا سب نے کہا شریف لوگ ھیں۔ تایا ابو نے فیصلہ کیا کہ جمعے کو انھیں ھاں کردیں گے۔ جامعہ میں چار دن باقی تھے اچانک صفوان آگیا اسے پتا چلا تو ساریہ کے پیچھے ھوگیا میرے ابا کی بہنیا بنے گی دلہنیا بھتیجا راجہ بجائے گا باجا۔ ساریہ چڑ کر بولی تم بولتے رھو کسی باجے سے کم ھے کیا۔ صفوان ھنستا رھا اس کے دوست طاھر کے بڑے بھائ کی شادی تھی اس نے کہا ساری پھپھو میرے ساتھ چلیں آپ طاھر کی بہن تمنا سے گپ شپ کرنا ساریہ تو تھی ھی دیوانی فنکشنز کی فوری ھامی بھر لی شام میں صفوان کے ساتھ شادی پر پہنچ گئ۔ طاھر کی بہن ساریہ کے کالج میں پڑھتی تھی گپ شپ ھوگی تھی وہ ساریہ کو دیکھ کر بہت خوش ھوئ اور اپنی سہیلیوں میں ساریہ کو لے آئ اس کی سہیلیاں خوش مزاج لڑکیاں تھیں ساریہ ان میں گھل مل گئ۔ تمنا کی سہیلی عائشہ کو سب کہ رھی تھیں کہ عاشی تم نے لپ اسٹک ڈارک لگائ ھوئ ھے گرین سوٹ کے ساتھ بے بی بنک لگاتیں عاشی بولی عین ٹائم پر نھیں ملی تو یہی میچ کررھی تھی میں نے لگا لی ساریہ تمنا کے بال بنا رھی تھی اس نے کہا میرے پرس میں بے بی پنک ھے لے لو۔۔ جب عایشہ نے پرس کھولا تو اندر مغیث کی فوٹو بھی نکل آئ ارے ساریہ یہ بنئے بھائ کی پک تمہارے پاس کیسے ائ۔ کون بنئیے بھائ ساریہ چونکی یہ بنئیے بھائ اس نے مغیث کی فوٹو دکھائ۔ ارے یہ تو مغیث ھیں آج کل ان سے بات چل رھی ھے میری۔ ارے کہیں منگنی نکاح تو نہیں ھوگیا عائشہ نے پوچھا تمنا بولی تم کیوں پوچھ رھی ھو عائشہ نے کہا یہ میرے دور کے کزن ھیں بہت کنجوس فیمیلی ھے نوالے تک گن کے کھاتے ھیں اور ٹکے ٹکے کا حساب رکھتے ھیں اور یہ مغیث چمڑی جائے دمڑی نہ جائے کے اصول پر چلتے ھیں شرٹ کے کالر پر رومال رکھتے ھیں میلی نہ ھو جائے پٹرول مہنگا ھے وین پر آفس جاتے ھیں دوستوں میں یہ نہ بیٹھے کہ خواہمخواہ خرچہ ھوگا اسی لئے سب کزن انھیں بنیا کہتے ھیں کولڈ ڈرنک مہنگا ھے مگر یہ لوگ اس میں ایسے ایسے کیڑے ڈالتے ھیں اور سردیوں میں ڈھیلے کینو لا کر سکوائش بنا لیتے ھیں سارا سال چلتا ھے۔ تبھی ساریہ کو بھابھی کی بات یاد آئ کہ مغیث کی امی نے سکواش پلایا کہتی گرمی میں پانی تو بندا کھل کر پئے ان موئ بوتلوں سے کوئ پیاس بجھتی ھے۔ھمارے گھر بھی رشتہ آیا تھا باجی کے لئے امی نے صاف کہ دیا کہ ھمیں اپنی بچی کی روٹیاں بھاری نھیں جو ان کے گھر بیاہ کر بھوکی ماریں کہیں رشتے داروں میں بات نہ بنی تو اب باھر ڈھونڈتے پھرتے ھیں بنئے بھائ پلاسٹک کی عینک لگاتے ھیں کہ سٹیل والے فریم سے مجھے الرجی ھے۔ یہ عینک پتا نہیں کس کی لگا کر فوٹو بنوائی ھے بنیئے بھائ نے۔ اب عائشہ نے پنک لپ اسٹک لگا لی تھی سب ساریہ کے شیڈ کی تعریفیں کر رھے تھے ساریہ کو اپنی سہیلی کی باتیں یاد آرھی تھیں کہ باھر کے لوگوں کا کچھ پتہ نہیں ھوتا کیسے نکلیں اس لئے اپنے اجھے ھوتے ھیں کوئ اونچ نیچ ھوجائے بندا بزرگوں کو بھی بیچ میں ڈال کر معاملہ حل کرلیتا ھے اور شکر ھے وہ شادی میں آگئ تھی تو مغیث بنیئے کی حقیقت کھل گئ ورنہ وہ تو پھنس جاتی۔ شادی سے واپس آکر ساریہ بھی لاونج میں بیٹھ گئ جہاں پلان بن رھا تھا کہ جمعے کو ھاں کرنی ھے اس نے پھر اللہ کا شکر ادا کیا کچن میں گئ تو اماں چائے بنا رھی تھیں اس نے اماں کے گلے میں بازو ڈال دئیے اماں نے پوچھا اب کیا منوانأ ھے تمہاری خواھش تو مان لی ساریہ نے نظریں جھکاتے ھوئے کہا اماں میں آپکی بات مان لوں گی آپ ان لوگوں کو انکار کردیں۔ اماں حیران سی ھوئ اپنی ضدی بیٹی کو دیکھ رھی تھیں۔ سچ کہا ساریہ تم نے۔ جی اماں میں آپ لوگوں سے دور نھیں ھونا چاھتی ۔اماں نے پیار سے اسکا ماتھا چوم لیا اور وہ شکر ادا کررھی تھی اس نے دور کے ڈھول جلدی سن لئے کہ کتنے سہانے ھونے تھے۔

۔

   16
1 Comments

Muskan khan

27-Aug-2023 12:17 PM

Well done

Reply